عبدالرافع رسول
زعفرانی بریگیڈ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ یاآر ایس ایس کی تازہ جارحانہ اورمحاربانہ سرگرمیاں ریاست جموں وکشمیر کی مسلم اکثریت کودعوت فکرفراہم کرتاہے۔ابھی ادہم پورمیں پیش آنے والاسانحے کوایک ہفتہ بھی نہیں گذراتھاکہ جب جموں شہر کے مختلف علاقوں میں اتوار25اکتوبر2015 کواس وقت بڑی ہڑبونگ مچی کہ جب زعفرانی بریگیڈراشٹریہ سیوم سیوک سنگھ یا(آر ایس ایس )نے اپنی روائتی خاکی نیکر ، سفید قمیص و سیاہ ٹوپی، جسے ’’گنویش ‘‘ کہا جا تا ہے ، میں ملبوس ہوکرجموں شہرمیںپتھ سنچالن کا اہتمام کیا۔ اس مارچ میں زعفرانی بریگیڈ آر ایس ایس سے وابستہ ہرعمرکے سینکڑوں غنڈوں نے شرکت کی۔ اس پریڈ سے آر ایس ایس کا حقیقی منصوبہ عیاں ہو تا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی اسے دسہرہ کے موقع پر محض معمول کی سرگرمیاں کہہ کر حق بجانب قرار نہیں دے سکتی ۔کیونکہ ریاست میںفطری طورپر فرقہ وارانہ تقسیم موجودہے ایسے میںدانستہ طورپر ایک فرقے کا مسلح اورلٹھ بردارمارچ کرنااورجموں شہرکی سڑکوں پراس طرح دندنانہ چہ معنی دارد ۔ زعفرانی بریگیڈ آر ایس ایس کے غنڈوں نے اسلحہ اور تلواروں کا کھلے عام مظاہرہ کئے جانے کے ساتھ ساتھ مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے نعرے لگاتے ہوئے جموں شہرکی سڑکوں پر مارچ کرتے رہے۔یہ مسلح اورلٹھ بردارمارچ جموں کے دہلی پبلک سکول کے گرائونڈ سے شروع ہوااور شہیدی چوک ، ریذیڈنسی روڈ ، شیر ِ کشمیر چوک ، وویکا نند چوکسے ہوتا ہوا دریائے توی کے کنارے واقع ہری سنگھ پارک میں اختتام پذیر ہوا ۔مارچ میں برہنہ تلواروں اور بندوقوں کا بھی مظاہرہ کیا جس کی یہ دلیل دی گئی کہ ان کے پاس ان ہتھیاروں کے با ضابطہ لائسنس ہیں ۔ یہ پریڈاس امرکوالم نشرح کرتاہے کہ زعفرانی بریگیڈ اور سنگھ پریواردراصل ریاست میں آگ سے کھیل رہا ہے۔لیکن اسے یہ نوشتہ دیوار پڑھ لیناچاہئے کہ ان کے مسموم ارادے خاک میں مل جائیں گے ۔
جموں شہر میں زعفرانی بریگیڈآر ایس ایس کی طرف سے منعقد کئے گئے ہتھیار بند مارچ نے اسلامیان ریاست کی تشویش اور فکرمندی کوبڑھادیاہے ۔ بی جے کی عسکری ونگ زعفرانی بریگیڈ آرایس ایس دراصل چاہتی یہ ہے کہ اسلامیان ریاست کومرعوب اورخوفزدہ کیاجائے اورانہیں یہ احساس دلایاجائے کہ ریاست جموں وکشمیر بی جے پی اوراسکی عسکری ونگ زعفرانی بریگیڈ آرایس ایس اوراسکے کثیرالجہت جتھوںکے رحم وکرم پر ہے۔چونکہ نومبرقریب آرہاہے جسکی 6تاریخ کوجموں میں غدرہوااس پس منظر میں جموں میں بی جے کی عسکری ونگ زعفرانی بریگیڈ آرایس ایس کامسلح اورلٹھ بردارمارچ الارمنگ ہے ۔ماضی کی خوفناک تاریخ کومدنظررکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ ریاست کے جموںخطے میں نومبر47کی تاریخ دہرانے کی رہرسل ہے ۔یہ وہی فسطائی سوچ ہے جس کے تحت 1947کے بعد سے آج تک بے حدوحساب اسلامیان ریاست کوموت کے گھاٹ اتاراگیااورانہیں تہہ تیغ کیاگیاہے ۔تاہم زعفرانی بریگیڈآرایس ایس کے ساتھ ساتھ بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کوبھی یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ وہ وقت ختم ہوچکاہے کہ جب تم دھمکیوں اورظلم و تشدد کے ذریعے اسلامیان ریاست کو خوفزدہ کرتے تھے اور وہ اپناآبائی علاقہ چھوڑ دیتے تھے ۔اب قربانیاں دینے والی اس قوم میں یہ سکت باقی ہے کہ وہ آر ایس ایس جیسی فسطائی قوتوںکے ایسے سبھی عزائم کو پیوستہ خاک کرکے رکھ دے گی ۔ البتہ افسوس اورظلم کی بات یہ ہے کہ کشمیرکی بھارت نوازجماعتیںاورانکی قیادتیں جو کل تک وادی کشمیرمیں آر ایس ایس جیسی فرقہ پرست جماعتوں کی سوچ اور سیاست سے برملا اختلافات کا اظہار کررہے تھے آج ان ہی لوگوں نے اپنے حقیر اقتداری مفادات کی خاطر ان فرقہ پرست جماعتوں سے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کررقصاں ہیں۔
آج کل پوری طرح بھارت کے طول وعرض میں بی جے کی عسکری ونگ زعفرانی بریگیڈ آرایس ایس نے پوری طرح اودھم مچائے ہوئے ہے ۔بھارت کے مسلمان اوردیگراقلتیں بشمول سکھ اورنچلی ذات ہندو، بی جے کی عسکری ونگ زعفرانی بریگیڈ آرایس ایس اور انواع واقسام کے اس کے درجنوں جتھوںکے ہاتھوں سے تختہ مشق بن رہے ہیں۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پے درپے انتہا پسندی کے واقعات نے بھارت کے نام نہاد (Shinning India)کے سیکولرازم کوپوری طرح بے نقاب کردیا ۔ہندو انتہاپسند ایک ایسے پاگل پن پر اتر آئے ہیں کہ کومسلمان اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ ساتھ نچلی ذات کے ہندو جس کے شکار ہیں۔ مودی کے اقتدارمیں آنے کے بعددرپردہ یاچھپی نفرت کی یہ برہنہ تلوار کھل کھل کر سامنے آ گئی ہے ۔ بی جے کی عسکری ونگ زعفرانی بریگیڈ آرایس ایس اور شیو سینا کاعفریت جو اس وقت پورے بھارت میں پھنکاررہاہے یہ عفریت آج پوری طرح آزادہے اورپورے بھارت پرراج کررہاہے۔ وہ نریندر مودی کی بھارتی جنتا پارٹی کے ساتھ حکومت میں پوری طرح شامل ہے ۔یہ پورامائنڈ سینٹ ہے جسے شیو سینا کا نام دیں یا آر ایس ایس کا، ایسا جنونی ہو چکا ہے کہ اب ریاست خاص طورپر جموںخطے کوللکاررہاہے اورمسلسل للکاررہاہے ۔کیاہے یہ نفرت کاخنجرکیاہے یہ زعفرانی بریگیڈ کتنازہرناک ہے یہ بی جے پی کی مسلح ونگ آیئے اس پرایک اجمالی نظردوڑاتے ہیں۔
1915 میں پہلی ہندو قوم پرست تنظیم قائم ہوگئی جس کا نام ہندو مہاسبھا رکھا گیا۔اس تنظیم کا اصل مقصد ہندوستان میں رام راج قائم کرنا اور ہندو تہذیب کو فروغ دینا تھا۔اس تنظیم کا مسلمانوں اور برصغیر کی دیگر اقلیتوں کے بارے میں نقطہ نظر یہ تھا کہ وہ اپنے مذہب کوچھوڑ کر ہندو بن جائیں یا پھر ہندوستان کو چھوڑ دیں۔اگرچہ اس تنظیم کو اصل جنگ ہندوستان پر قابض انگریز حکومت سے کرنا چاہیے تھی مگر انگریزوں سے ملی بھگت کی وجہ سے وہ کچھ ہی عرصے بعد مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا زہر اگلنے لگی اور مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی اسکیمیں بنانے لگی۔ اس مسلم کش تنظیم کے سرکردہ لیڈروں میں مشہور مسلم دشمن ویرساورکر، لالہ بچت رائے لاہوری اور ڈاکٹر مونجے مرہٹہ تھے۔ ویرساورکر اس کا پہلا صدر تھا۔اس تنظیم کی زہر فشانی کی وجہ سے 1922 میں محرم کے موقعے پر ملتان میں پہلا ہندو مسلم فساد برپا ہوا۔ پھر اس کے بعد تو ہندو مسلم فسادوں کا تانتا بندھ گیا۔ یہ کہنا کسی طرح غلط نہ ہوگا کہ برصغیر میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تمام فسادات میں یہی تنظیم ملوث تھی۔ انجمن انسداد گائو کشی کی بنیاد بھی سب سے پہلے اسی تنظیم نے رکھی تھی۔1925میں مہاسبھا کی کوکھ سے ایک اور زیادہ سخت ہندو قوم پرست اور مسلم دشمن تنظیم نے راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS)کے نام سے جنم لیا۔ اس کا سربراہ ایک انتہا پسند مرہٹہ ڈاکٹر ہجویر تھا۔ اسے قائم کرنے کا مقصد مسلمانوں سے برصغیر پر ان کے ایک ہزار سالہ اقتدارکا بدلہ لینا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے مقاصد میں ہندو مذہب کے احیا اورہندو اقتدار کے لیے مسلح جدوجہد کرنا بھی شامل تھا۔ یہ ہندومہاسبھا کی ذیلی تنظیم بعد میں مسلم دشمنی میں آگے نکل کر ہندومہاسبھا سے زیادہ خوفناک بن گئی۔یہ تنظیم ہندئووں میں مسلمانوں کے خلاف حد درجہ نفرت پھیلانے اور مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کے لیے مسلح تربیت دینے میں ہندوستان کی تمام
مسلم دشمن تنظیموں پر سبقت لے گئی تھی۔ آزادی ہندکے بعد یہ ایک زمانے تک بھارت کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی رہی تاکہ بھارت میں رام راج قائم کرسکے ۔
اس نے بھارت میں مسلم آزار سرگرمیوں کی انتہا کردی تھی۔ اسی نے اسکولوں میں مسلمان طلبا و طالبات کو ہندو قوم پرستانہ ترانہ’’ وندے ماترم‘‘ پڑھنے پر مجبور کیا اس جماعت نے شہر شہر اکھاڑے کھولے جہاں ہندو نوجوانوں کو ورزش کے ساتھ ساتھ چاقو، خنجر اور پستول کا استعمال سکھایا جاتا تھا۔ اس کے کارکنوں کو مسلمانوں کی خون ریزی کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی تھی۔ اس کے لیڈروں کا انگریزوں سے گہرا رابطہ تھا۔ ولبھ بھائی پٹیل جو مسلمانوں کے کٹر دشمن تھے کانگریس کے سرکردہ لیڈر تھے۔ تقسیم کے بعد وہ بھارت کے پہلے وزیر داخلہ بنائے گئے تھے۔اسی شخص نے جونا گڑھ حیدرآباد دکن اور کشمیر پر حملہ کروا کر ان کا نہ صرف مسلم تشخص ختم کرا دیا تھا بلکہ کشمیریوں کو بھارت کا غلام بنا دیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی خود نوشت آزادی ہند INDIA WINS FREEDOM) (میں کھلے الفاظ میں لکھا ہے کہ پٹیل مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن تھا ۔ مولانا کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ گاندھی کے قتل میں بھی پٹیل کا ہاتھ تھا کیوں کہ وہ درپردہ آر ایس ایس کا نمایندہ تھا اور اس کے گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے سے تعلقات تھے۔ اس نے انگریزوں کی شے پر ہندو مسلم اتحاد کو فنا کرنے کے لیے پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف بلوے کروائے۔ 1946 میں بہار میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام میں ہی جماعت پیش پیش تھی۔اسی جماعت نے دیگرکٹر مسلم دشمن جماعتوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ہندو بنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا مگر اس مکروہ تحریک کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا کیوں کہ ہندوستان کے ان پڑھ اور غریب ترین مسلمان بھی اس مکروہ تحریک سے متاثر نہ ہوسکے۔ اس ناکامی کے بعد اس جماعت نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر توہین رسالتؓ کی شان اقدس میں گستاخانہ کتابیں لکھوانا شروع کیں۔
اس وقت آر ایس ایس اپنی قائم کردہ اور حالیہ الیکشن کے نتیجے میں برسر اقتدار بھارتی جنتا پارٹی کے ساتھ پوری طرح بھارت میں اپنی حکمرانی چلا رہی ہے۔ اس سے قبل اس نے مودی کے گجرات کا وزیر اعلی ہوتے ہوئے 2002 میں وہاں مسلمانوں کا قتل عام کروایا تھا اور اب مودی کے پورے بھارت کا وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی حکومت کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں پر شدھی فتنے کا عذاب نازل کیا ہے مگر اب مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں کو بھی ہندو بنانے کی مہم جاری ہے۔جبکہ نچلی ذات کے ہندئووں بھی اس آگ میں جل مررہے ہیں۔
دراصل یہ سارا کھیل آر ایس ایس کے موجودہ ہیڈ موہن بھگوت کے حکم پر کھیلا جا رہا ہے۔ موہن بھگوت نے صرف دویوم قبل بڑی ڈھٹائی سے دعوی کیا کہ حکومت انکی ہے وہ جس طرح چاہیں کرگذریں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ زعفرانی بریگیڈ بھارت میںاب اتنی طاقت اور شہہ پا چکا ہے کہ وہ کھلے عام بھارت کے طول و عرض میں اودھم مچائے ہوئے ہے اوربھارتی مسلمان ،سکھ ،عیسائی ،شودر،ملیچ اوردلت اس کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑرہے ہیں۔سچ یہ ہے کہ بی جے پی کے وزرا بشمول وزیر اعظم مودی دراصل آرایس ایس کے ہی بنیادی رکن ہیں اور مودی سرکار اپنے آپ کوآر ایس ایس سے مشورے کرنے کی پابندسمجھتے ہیں ۔16تنظیمیں جو آر ایس ایس سے جڑی ہوئی ہیں جومودی حکومت کاباضابطہ حصہ ہیں۔
واضح رہے کہ اس خطے میں بھی انتہاپسندہندئووںکی اسلام دشمنی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہندوستان میں اسلام کی مقبولیت کے آگے بند باندھنے کے لیے انتہاپسند ہندئووں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو ان کے بس میں تھا۔ کبھی نو مسلموں کو شدھی فتنے کے ذریعے ہندو بنانے کی گھنائونی مہم شروع کی گئی تو کبھی مختلف بہانوںسے مسلم کش فسادات کرائے گئے۔اس خطے میںمسلم دشمنی کایہ سلسلہ انگریزوں کے زمانے میں خوب پھلا پھولا کیونکہ وہ تو خود پہلے سے ہی یورپ میں اسلام دشمنی پر کمر بستہ چلے آ رہے تھے تاہم اس گھنائونی مہم کے خلاف مسلمانان برصغیر سینہ سپر ہو گئے ۔پہلے کانگریس کے دورمیںمسلم کش فسادات کرائے گئے اب پوری کسربی جے پی نکال رہی ہے۔ کون نہیں جانتاکہ بابری مسجد کا سانحہ اسی کے دور میں رونما ہوا تھا۔ پھر ممبئی میں سیکڑوں مسلمانوں کو کانگریس کے ہی دور میں قتل کیا گیا تھا۔اگر کانگریس سچ مچ میںمسلمانان بھارت سے کوئی نرم گوشہ رکھتی ہوتی تواس کی حکومت چاہتی تو بابری مسجد کو ہرگززعفرانی بریگیڈ آر ایس ایس کے غنڈے تباہ نہ کر پاتے اور وہاں مورتیاں بھی نہ رکھ پاتے۔ اس سانحے کے بعد اس وقت کانگریسی وزیر اعظم نرسمہارا نے اپنے بیان میں اس سانحے پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یوپی میں کانگریس کی حکومت ہوتی تو ہرگز بابری مسجد کا سانحہ رونما نہ ہوتا مگر اسے کیا کہیے کہ 1949 میں جب پہلی دفعہ بابری مسجد کے تقدس کو پامال کیا گیا تھا اور وہاں مورتیاں رکھی گئی تھیں اس وقت یوپی میں کانگریس کی ہی حکومت تھی۔ مشہور کانگریسی لیڈر پنڈت گووند ولبھ پنت وہاں کے وزیر اعلی تھے۔مسٹر پنت خود بابری مسجد کی بے حرمتی کی سازش میں شریک تھے۔ دراصل کانگریس نے سیکولرزم کے لبادے میں خود کو چھپا رکھا ہے۔ ورنہ اس کے رہنما آر ایس ایس کے راہنمائوں سے کم مسلم دشمن نہیں ہیں۔ 2002 میں جب گجرات میں ایک ناپاک منصوبے کے مطابق کئی ہزار مسلمان مرد عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ خواتین کی وہ بے حرمتی کی گئی تھی کہ جس کی برصغیر میں نظیر نہیں ملتی۔ عورتوں کی عزت کو داغدار کرنے کے علاوہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے گئے تھے۔ایسی درندگی کے باوجود کانگریسی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے خود احمد آباد جا کر بھارت کے سب سے کامیاب وزیر اعلی کا ایوارڈ دیا تھا۔
آج بی جے پی جوکچھ کروارہی ہے اسی بربریت کاتسلسل ہے ۔فرق اگرکوئی ہے وہ صرف یہ کہ اب باضابطہ حکومتی حصہ بن کر زعفرانی بریگیڈ بھارت میں ایک بار پھر شدھی فتنے کے گڑھے مردے کو زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔نریندر مودی کی حکومت کے بارے انتخابات سے قبل ہی مسلمانوں کی جانب سے جو خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے وہ اب سچ ثابت ہورہے ہیں۔ مودی کے الیکشن میں کامیاب ہوتے ہی بی جے پی کی ذیلی انتہا پسند تنظیموں نے جگہ جگہ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر انھیں ڈرانا دھمکانا پاکستانی ایجنٹ کا طعنہ دینا اور ان پر حملے شروع کر دیے تھے۔کئی شہروں میں مسلمان نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔ اب بی جے پی کی ان بغل بچہ تنظیموں نے بی جے کی عسکری ونگ زعفرانی بریگیڈ آرایس ایس کے ہیڈ کوارٹر واقع ناگپور سے ہدایت پا کر بھارت کے کئی شہروںبالخصوص بھارتی شہر آگرہ میں غریب اور ان پڑھ مسلمان خاندانوں کو جبراََہندو بنانا شروع کر دیا ہے۔اس شرمناک فعل کو’’ گھر واپسی‘‘ تحریک کا نام دیا گیا ہے۔ اس گھنائونے عمل کے شروع ہونے سے بھارت کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایسے میں جموں شہرکی سڑکوں پرزعفرانی بریگیڈ کامارچ بڑامعنی خیز چشم کشاہے اوریہ مارچ اسلامیان ریاست کوہوشیاراورخبرداررہنے کاتقاضاکررہاہے۔